آزاد کر دو اب تم اپنی محبت سے
درد کے اس پنچھی کا دم گھٹنے لگا ہے
تھکن سے اس کے پر ٹوٹ رہے ہیں
بے نشاں رستوں پہ یہ بھٹکنے لگا ہے
بے سمت ہواؤں میں اڑا نہیں جاتا
ہوا کے تھپیڑوں سے گرنے لگا ہے
تمام ٹولیاں شام ہوتے ہی اڑ گئیں
اداس راہوں میں تنہا بکھرنے کگا ہے
پیاس ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے
سانس بھی اب اٹکنے لگا ہے
بہت راتوں سے جاگا ہوا ہے یہ
منزل کو ڈھونڈتے اونگھنے لگا ہے
آنسو تاروں کی مانند ٹوٹ رہیے ہیں
یہ بادل بھی کرب سے گرجنے لگا ہے