دم گھٹتا ہے روح پھڑپھڑاتی ہے
جیسے جسم سے آزادی چاہتی ہے
ایک پل کے لیے بھی چین سے نہیں رہتی
خود بھی تڑپتی ہے مجھے بھی تڑپاتی ہے
بیقراری میں گھلتی رہتی ہے
جانے کس سمت جانا چاہتی ہے
دم گھٹتا ہے روح پھڑپھڑاتی ہے
جیسے جسم سے آزادی چاہتی ہے
نہ خماری ہے نہ بیداری ہے
نیند بھی اب نہیں ہماری ہے
اب تو رک رک کے سانس چلتی ہے
دم نکلتا کبھی سنھبلتا ہے
روح بے طرح تلملاتی ہے
کیوں میری جان کو جلاتی ہے
کس لئے مجھ کو یہ ستاتی ہے
دم گھٹتا ہے روح پھڑپھڑاتی ہے
جیسے جسم سے آزادی چاہتی ہے