صبحِ روشن کا نقاّرہ بجتا رہا
پر نہ ظاہر ہوئی صبحِ روشن کبھی
شامِ غم کی طولت کے خوگر تھے جو
لوٹتے ہی رہے میری خوشیاں وہی
نا ہی اقبالؒ کا خواب آیا نظر
نہ وہ قائدؒ کا وعدہ ہی پورا ہوا
زندگی بے نواؤں کی مجبور تھی
آج بھی زندگی یوں ہی محروم ہے
نہ چھٹِیں میری دھرتی سے تاریکیاں
نہ ہی روشن ہوئے میرے کوہ و دَمن
میری دھرتی پہ ظُلمت کا ہی راج ہے
وہ جو قاتل تھا کل کا ، وہی آج ہے