آستیں کے پالے ہوئے
Poet: رشید حسرت By: رشید حسرت, Quettaچلے ہیں کاٹنے کو آستیں کے پالے ہوئے
ہمارے ہاتھوں جنہیں دان سب اجالے ہوئے
بہشت راس نہ آئی، تو لی زمیں ہم نے
سکون پا نہ سکے خُلد کے نکالے ہوئے
فساد ویسے بھی انسانیت کے حق میں نہیں
وگرنہ آج کے ہیں لوگ دیکھے بھالے ہوئے
نصیب کا جو لکھا ہے وہ مل کے رہتا ہے
لگے ہیں ماتھے وہی لوگ جو تھے ٹالے ہوئے
گذشتہ رات ہؤا کیا کہ لڑکھڑاتے رہے
بڑی ہی دیر تلک خود کو خود سنبھالے ہوئے
کیا تھا جس نے بھی دعویٰ، غلط نکل آیا
مگر یہ سچ ہے کہ ہمدرد اپنے چھالے ہوئے
پلٹ کے گود میں اپنی ہی دیکھو آن گرے
رشیدؔ درد کے سکّے سبھی اچھالے ہوئے
More Sad Poetry






