آسیب زدہ ہو گئے حالاتِ کراچی
کم ہونے پہ آتے نہیں صدماتِ کراچی
ماتم کی صدائیں ہیں ہواؤں کے لبوں پر
گُم ہو گئے جانے کہاں نغماتِ کراچی
دہشت زدہ ہر دن ہے تو پُر خوف ہر اک شب
پُر درد ہیں، پُر کرب ہیں اوقاتِ کراچی
ارکان کی گنتی کو بڑھانے کی ہوَس میں
بڑھائے چلے جاتے ہیں امواتِ کراچی
ہو گلشنِ اقبال، کلفٹن کہ لیاری
عبرت کا نمونہ ہیں مقاماتِ کراچی
کیڑوں کی طرح مار دیا جاتا ہے انسان
ہو وسطِ کراچی، کہ مضافاتِ کراچی
خونیں نہ کرو قائدِ اعظم کے کفن کو
یُوں مقتدرو بُھولو نہ خدماتِ کراچی
ماں کی طرح اس نے تمہیں سینے سے لگایا
مسلک زدو ! سمجھو تو روایاتِ کراچی
دیتا ہے دہائی تجھے خونابہ ء عاشی
مقبول کر اللہ مناجاتِ کراچی