تیری یاد میں جو نکل آئے آنسو
پھر کسی طرح تھمنے نہ پائے آنسو
کل شام ایک محفل کو لے ڈوبے
جب دل کھول کر بہائے آنسو
یہ رکنے کا نام نہ لیتے تھے
کھانے کے ساتھ بھی کھائے آنسو
اپنی آنکھوں سے بہتے اچھے نہیں لگتے
ہمارے دل کو لباتے ہیں پرائے آنسو
مجھے وہ بڑے انمول لگنے لگے
جو اس کی پلکوں سے چرائے آنسو
وہ جب ہم سے روٹھ کر چل دیا
پھر رات بھر ہم نے بہائے آنسو