آنکھ جب سے ہے ترے ساتھ ملائی جاناں
ہو گئی اپنی عدو ساری خدائی جاناں
دشت غربت میں لٹی میری کمائی جاناں
روز و شب دیتا پھروں اب میں دہائی جاناں
جس طرف آنکھ اٹھاؤں ترے جلوے دیکھوں
اللہ اللہ ، مرا اوج رسائی جاناں
کھل گیا بھید ترے جور و ستم کا سارا
تو نے محفل میں جو آنکھ آج چرائی جاناں
تم نے ہوتے ہی جواں بدلی نگاہیں کیوں کر ؟
نخوت حسن تمھیں کس نے سکھائی جاناں ؟
پس مردن بھی کسی طور نہ پاؤں گا نجات
نہیں ممکن تری زلفوں سے رہائی جاناں
گھر سے صحرا کو ، گئے دشت سے ہم دار کی سمت
تیری الفت نے عجب راہ دکھائی جاناں
آج قابو میں نہیں کیوں یہ مرے ہوش و حواس
ساغر چشم سے کیا شے ہے پلائی، جاناں
تیرا مجنوں ہی تو تھا جس نے بھری دنیا میں
دشت در دشت یہاں خاک اڑائی جاناں
ہائے ! اس روز سر بزم قیامت ہو گی
رخ سے چلمن جو کبھی تو نے ہٹائی جاناں
تیری نسبت کے سبب دھوم مچی ہے میری
ہے ترا فیض ، مری شعلہ نوائی جاناں
وجد صوفی کو نہ آئے سر محفل کیوں کر ؟
مطرب دل نے غزل کیسی سنائی جاناں
اس کو معراج محبت کا شرف جانوں گا
کاش مل جائے ترے در کی گدائی جاناں
ناخن پا کے ہی صدقے ہو عنایت کی نظر
میری ہو جائے گی بس عقدہ کشائی جاناں
وہ ترے رومی ء خستہ کے سوا اور ہے کون ؟
جس نے دنیا میں ہے لو تجھ سے لگائی جاناں