آپ کیوں افسردہ ہیں انداز بھی بیزار ہے
مزاج مضمحل ہے آنکھوں میں انتظار ہے
کچھ تو جواب دیجئیے میرے سوال کا
ہونٹوں پہ چپ لگی نظر بے اعتبار ہے
سانسوں کی بے کلی بھی ترتیب میں نہیں
آنکھوں کی ڈوریوں میں ڈولتا خمار ہے
آنچل ہوا کے سنگ اٹھکیلیاں کرے
جیسے کوئی مدہوش بے اختیار ہے
چوڑی کی کھنک مستی میں جھومنے لگی
پائل کی چھنک میں کچھ اور ہی جھنکار ہے
زلفوں کی پریشانیاں رخ پہ تو دیکھئیے
پھول گرد جیسے بکھری ہوئی مہکار ہے
غمگسار زخم جگر اعضائے جسم و جاں
چشم نم بیدار ہے تو سراپا بے قرار ہے