میخانہ جس طرح تری آنکھوں میں کرے رقص
اے کاش یہ دیوانہ تری بانہوں میں کرے رقص
ہلچل مچائے سینے میں ترے لبوں کا تھر تھرانہ
ہلیں لب ترے جیسے کنول لہروں میں کرے رقص
اپنا تو وطیرہ ہے یہی غم میں بھی مُسکراؤ
زیرپا جیسے رقاصہ کوئی زنجیروُںمیں کرے رقص
تیرے بولنے سے ہلچل ہوئی فضا میں چار سوُ
ساری دُنیا تری شہد بھری باتوں میں کرے رقص
بس گئی تصویر تری ان آنکھوں میں اس طرح
تیرا سایہ مرے کمرے کی دیواروں میں کرے رقص
آئے تو میرے رُو برُو تو لگے ہے اس طرح
جیسے درد بھی مرے دل کے زخموُں میں کرے رقص
جھومے تیرے خیال کی رعنائیوں سے دل
پھولوں بھری ٹہنی جیسے بہاروں میں کرے رقص
لے کے دل میں سمندر سے ملنے کی جُستجُو
پانی کس آب و تاب سے آبشارُوں میں کرے رقص
محبُوب خدا کا دل بھی لبھانے کو د یکھئے
پری در پری جنت کے چناروں میں کرے رقص
داستان درد و غم چنگ و رباب عیش و نشاط
ہر فسانہ و کہانی ابجد کے حرفوں میں کرے رقص
خوشبو تو اڑ گئی اکیلی رہ گئیں کلیاں
پھر کس طرح سے پھول کتابوں میں کرے رقص
وہ حقیقی خوشی انساں کو میسر ہے کہاں
کہ مور جس طرح سے جنگلوں میں کرے رقص
ُ
وہی حشر ہوگا نوع انساں کا بھی کبھی
چیلنجر جس طرح سے خلاؤں میں کرے رقص
ہے قائم حیات جس سے زیر حرارت ہے کائنات
قیصر وہ خون دل کے خانوں میں کرے رقص