آنکھوں میں کسی کی یاد کا
آج میں راس گھول رہا ہوں
اَلجے ہوۓ پہلوں سے اب تو
آج میں گرہ کھول رہا ہوں
وہ آۓ اب خریدے مجھ کو
پنجرے میں بٹیھا دے مجھے
باغ میں کسی مینے کی طرح
میں بھی آج اکیلا بول رہا ہوں
میرے ساتھ ہوا ہے ہر بار ہی
میرے ہی نقش کا سودا اب
کہنے کو تو میں ہمیشہ مسعود
سب کے لیے میں انمول رہا ہوں