آنکھوں کے آنسو، سارے ہی بہہ گئے
بس فلک پہ ٹوٹتے، تارے ہی رہ گئے
دردِ جُدائی بھی کبھی کم نہیں ہوا
بس تیری یادوں کے سہارے ہی رہ گئے
جیت ہی گئے تھے اگر ہار نہیں مانتے
جیتتے ہوئے بھی ہارے ہی رہ گئے
انکھیں بھیگی رہیں اور دل اداس بھی
خالی ہاتھ ساحل کے کنارے ہی رہ گئے
حالات نے شہریار کو ستایا کچھ اس طرح سے
گلابوں کی جگہ قسمت میں انگارے ہی رہ گئے