آنکھوں کے فریب کو نگاہوں کے فتور کو
ہم نے بہت قریب سے دیکھا ہے اپنے دور کو
بصارت قلب و نگاہ محو نظارہ دم بدم
تاریکیوں کے شہر میں دیکھ لیا نور کو
حسن ادا حسن بیاں حسن نظر حسن گماں
ظلمت کے آسمان پہ نور کے ظہور کو
جن کے دم سے شہر دل آباد رہا ہے
دل نہ بھول پائے گا کبھی میرے حضور کو
اہل کرم کی دوغلی پالیسیاں واللہ رے
بدنام کرنا فرض ہے شاید کسی مشہور کو
عظمٰی یہ مہرباں ہیں یا اہل ستم پتہ نہیں
جو خوامخواہ تبدیل کرتے رہتے ہیں دستور کو