ہستی اگر جہاں میں ملے اعتبار کی
رکھیے نہ دل میں کوئی کمی اس سے پیار کی
مانا چمن کو دے نہ سکے ہم بہار نو
لیکن نوید دے کے چلے ہیں بہار کی
تقدیر میں لکھے سے ہی آہیں و قہقہے
غم اور خوشی کی باتیں نہیں اختیار کی
نقلی دوائیں کھانے سے بڑھتا رہا مرض
بہتر ہے ان کو چھوڑ کے حالت بیمار کی
ترک وفا نہ دل کبھی تسلیم کر سکا
کوشش تو اس کو بھولنے کی بار بار کی
دکھ سکھ میں اپنی یاد سے غافل نہیں کیا
ہے مجھ پہ عنایت مرے پرور دگار کی
مالی نے پھول توڑ کے کانٹے اگا دیے
صورت بگڑ کے رہ گئی ہے لالہ زار کی
بکھری پڑی ہیں دھجیاں قانون کی یہاں
پھیلی ہوئی ہے ملک میں ہر سو انارکی
بولے تو سر میں ایسے کہ اب کیا مثال دوں
آواز جیسے آنے لگی ہو ستار کی