آپ جب سے مرے ہم سفر ہو گئے
راستے خود بخود مختصر ہو گئے
سپنے اونچی اڑانوں کے سپنے رہے
سازشوں کی نظر بال و پر ہو گئے
حق بیانی جو کی بد گمانی بڑھی
ان کی جیسی کہی معتبر ہو گئے
منزل عشق تھی بس ترا در صنم
تیرا در چھوٹا ہم دربدر ہو گئے
راہ الفت ہمیں راس آئی نہیں
تنگ ہم پر سبھی رہگذر ہو گئے
جرم کا تو ہوا بعد میں ارتکاب
نامزد پر کئ پیشتر ہو گے
اک ذرا بھی نہ پگھلا وہ سنگدل حسن
سارے شکوے گلے بے اثر ہو گئے