آپ سے کیا جدا ہوا ہوں میں
اک اذیت میں مبتلا ہوں میں
راہ یہ کس طرف کو جاتی ہے
بے خطر جس پہ چل پڑا ہوں میں
ہے وہ عالم کہ حال بھی اپنا
اب تو اوروں سے پوچھتا ہوں میں
اس نے اک بار تھا چھوا مجھ کو
اور اب تک مہک رہا ہوں میں
آپ یہ سوچ بھی نہیں سکتے
آپ کو کتنا سوچتا ہوں میں
اتنا میں خود کو جانتا بھی نہیں
جس قدر تم کو جانتا ہوں میں
اپنے اندر نہ ڈھونڈیے مجھ کو
اپنے اندر چھپا ہوا ہوں میں
سچ تو یہ ہے کہ مصلحت کے سبب
جھوٹ بھی خوب بولتا ہوں میں
اب تو مجھ کو گلے لگا لیجیے
سارے شکوے بھلا چکا ہوں میں
کون ہے مجھ سے کھو گیا تھا جو
کون ہے کس کو ڈھونڈتا ہوں میں
سچ بتاؤں تو میری جاں تجھ کو
جان سے بڑھ کے چاہتا ہوں میں
اک فقط تیری یاد ہے دل میں
ورنہ سب کچھ گنوا چکا ہوں میں
آج تم یاد کیوں نہیں آئے
آج تم سے بہت خفا ہوں میں