آپ یہاں سے گزر کے جانے کس طرف ہوئے
ہم نے دیکھا تھا ادھر کو آپ جس طرف ہوئے
لفظ و معنی کے مغنی ہو کے بھی کنگال ہیں
ذہن سے عنقا ہمارے منفرد حرف ہوئے
صرف و نحو میں مصارف گم رہے کچھ اسطرح
حرف حرف جوڑتے حرفوں میں خود صرف ہوئے
آتش بجاں شباب میں جو خوب تھے کبھی
پیری میں سرد یوں یوئے گویا کہ برف ہوئے
دل کی دھڑکنوں میں بہت شور بپا تھا
جھانکا تو دل کے تار سب خالی ظرف ہوئے
اپنے نصیب میں فقط رسوائیاں رہی ہیں
ان کو نصینب سے بہت حاصل شرف رہے
عظمٰی رقیبوں کو بھی عشاق جان کے
اپنی طرف رہے کبھی ان کی طرف رہے