ُاس سے کہوں اب تو آ جائے
کے آہستہ آہستہ ڈھل رہی ہوں میں
مددت سے اپنی اک خطاء کی
آگ میں جل رہی ہوں میں
میری زندگی بہت بے رنگ ہو گئی ہے
تنہائی کے رنگوں میں گھل رہی ہوں میں
تمہارے شک نے مجھے میری نظر سے گرا دیا
شمع کی طرح اب پگھل رہی ہوں میں
میرے دیس میں کچھ نہیںتیرے دیس جیسا
بند کمروں میں آنسو نگل رہی ہوں میں
میرا چہرہ ویران پڑھ گیا ہیں سوخے پتوں کی طرح
تمہیں نہیں معلوم کیسے چل رہی ہوں میں
چاروں طرف سناٹا ہے کیسے آواز دوں
بس آج خدا سے ہی مل رہی ہوں میں