اب اس سے شکایت بھی تو بےکار لگے ہے
ہر بول میرا جسکو اک تلوار لگے ہے
مغموم پر شان سا گلبار لگے ہے
چہرہ تیرا ہر صبح کا اخبار لگے ہے
بھائیَ سے یہاں بھائی بھی بیزار لگے ہے
پھر کون کسی کا یہاں غمخوار لگے ہے
کیا ہو گیا اس دور کے انسان کو یارب
ہر ایک یہاں زست سے بیزار لگے ہے
آجا کہ یہ شب مجھے ڈس جائے گی ورنہ
ہر لمحہ تیرے ہجر میں دشوار لگے ہے
دعویٰ تھا اُسے اپنی مسیحائی کا لیکن
یوسف وہ مسیحا بھی بیمار لگے ہے