اب بھی تو کہو
کبھی تو کہو
تیرے دیکھنے کو اپنی
آنکھیں یہ ترستی ہیں
تم بِن یونہی اکثر
چھَم چھَم سے برستی ہیں
تیری صورت دیکھ کر آنکھیں
پھولوں سی مہکتی ہیں
تُو نہ ہو تو پہروں
تیرا رستہ تکتی ہیں
تم بِن دل میرا
بے قرار سا رہتا ہے
خوشیوں میں بھی اب اکثر
سوگوار سا رہتا ہے
تم سے بہت کرنی
ہاں مجھ کو باتیں ہیں
تم بِن بے معنی
چاندنی راتیں ہیں
بہت دن ہوئے کوئی
سپنا بھی نہیں دیکھا
تم بِن کوئی میں نے
اپنا بھی نہیں دیکھا
تم بِن پھولوں میں
خوشبو بھی نہیں باقی
تم بِن جینے کی
جُستجو بھی نہیں باقی
یاد آؤ گے مجھے تم
ہر پل یونہی بیٹھے
کہیں گے مجھے یہ سب
پاگل یونہی بیٹھے
اب بھی تو کہو
کبھی تو کہو
وہ باتیں جو کرتے تھے
اِک بار سبھی تو کہو