میری ہر دکھتی ہوئی رگ کو دبانے والا
آج آیا نہیں کوئی بھی ستانے والا
خوابِ غفلت میں رہیگا کوئی آخر کب تک
آ ہی جائے گا کوئی شخص جگانے والا
لوٹ کے کیوں نہیں پھر آتا مری دنیا میں
قلب کے ہونے کا احساس دلانے والا
خامشی بیش بہا ہے یہ کسے سمجھاؤں
جس کو بھی دیکھیے ہے شور مچانے والا
دوست کی طرح مری زیست میں داخل ہونا
یاد رکھنا میں نہیں ناز اٹھانے والا
میری تقدیر میں لکھا نہیں شاید کوئی
ہر گھڑی اپنے اشاروں پہ نچانے والا
میری چاہت میں چمک تھی نہ کشش تھی موجود
اس کو مطلوب تھا اک شخص خزانے والا
جو بھی آیا ہے مرے پاس وہ واپس لوٹا
اب تو آ جائے کوئی آ کے نہ جانے والا
اپنی تنہائی سے اکتا سا گیا ہوں جاوید
کاش آ جائے کوئی بزم سجانے والا