اب نگاہ شوق میں میرے لیے نفرت سہی
تجھ سے ملنے کے لیے دل میں مرے حسرت سہی
جی ہی لوں گا دوست میں رسوائیوں کے ساتھ بھی
گر نہیں عزت کوئ دنیا میں تو ذلت سہی
کیسے سمجھوتہ کروں اپنی انا کے ساتھ میں
مال و دولت نہ سہی تقدیر میں غربت سہی
پا نہیں سکتا تجھے میں آہ میری بے بسی
اے مری محبوب ! تجھ سے اس قدر الفت سہی
اس سے زاہد کوئ نہ کوئ تعلق تو رہے
بے رخی و بے وفائ دوست کی فطرت سہی