اب نیا امتحاں ہونے کو ہے زمیں بھی آسماں ہونے کو ہے غلام گردش میں رہنے والے بےسائباں اب پھر ہونے کو ہے ہم نےآغوش جفا سے سیکھا ہے کہ زندگی کا اب آغاز ہونے کو ہے حیرت ہےاس حسرت تمنا پر سمیعہ کہ مشت خاک کا پھرطواف ہونے کو ہے