میسر نہیں تھا میرے، دل بے کیف کو سکوں
ٹھہرتی ہر لمحے پہ پھر میری ہی نگاہ کیوں
بحر آفریں ہے تیرے جگر کی وسعت پر
چھلنی کر لیا خود کو پر نہ بھری آہ شکوں
نہیں مثل بحربندہ بشر، یہ ریتی رواج کا مارا ہوا
کجا وسعت جگر، کجا ماہ کامل سا سکوں
بندہ بشر جو ٹھہرا سو کر لیا عہد بدی
پھر چل پرا سوئے دھن کے جنوں
محور ذات سے ہٹ کر سوچو کوئی خدارا
یونہی مرجائیں گے ادنیٰ، یونہی رہے گا دل کا فسوں
ہوا نہ خردمند کوئی بھی زمانے میں
یہ کیسے میں آج کے اہل دانش سے سنوں
حسب منش چلتے ہیں سبھی یہاں فرزیں
نہ رہا خردمند کوئی،نہ ہی رہا علم و فنوں
بکھر گیا شیرازہ، اٹھ گیا جنازہ
کہاں گئے وہ مسلماں، اب کس کے نشان چنوں