جانے کیسے گل کھلیں گے یہ سوچ کر اب کے برس
لگ رہا ہے خود بہاروں کو بھی ڈر اب کے برس
اپنی منزل کے نئے ہیں راہبر اب کے برس
ہے تغیر رونما ہر راہ پر اب کے برس
گر شعور وفکر ہونگے معتبر اب کے برس
راہ کی ٹھوکر بنے گی راہبر اب کے برس
ایک گونگا خوف کیوں ہم پر مسلط ہوگیا
تجزیہ کرتا کوئی صاحب نظر اب کے برس
قافلے یادوں کے جاکر کس گلی میں کھو گئے
دل کی ویراں ہوگئی کیوں راہگزر اب کے برس
کتنے ہاتھوں میں ہے باقی طنز کے پتھر نوید
کانچ کا مت کیجیے تعمیر گھر اب کے برس