لگتا ہے کہ اب چاہتیں آسان ہیں زیادہ
عشاق ہیں کم چاق گریباں ہیں زیادہ
اک آدہ کوئی صاحب دل بھی ہے فروکش
اب کچہ دلدار میں دربان ہیں ذیادہ
مدت سے کوئی جانب مقتل نہیں آیا
قاتل بھی توقع سے پشیماں ہیں ذیادہ
جس تاج کو دیکھوں وہی کشکول نما ہے
اب کے تو فقیروں سے بھی سلطان ہیں زیادہ
ہر اک کو دعویٰ ہے یہاں چارہ کا
اب دل کے اجڑ جانے کا امکان ہے زیادہ
کیا کیا نہ غزل اسکی جدائی میں کہی
ہم پہ شب ہجراں تیرے احساں ہیں زیادہ
لوگوں نے تو جو زخم دیے تھے سو دیے تھے
کچھ تیرے کرم ہم پہ میری جاں ہیں زیادہ
مشاط دنیا سے کہے کون فراز اب
ہم یار کی ز لفوں سے پریشاں ہیں زیادہ