اب ہم کو کسی سے کوئی شکوہ نہ رہے گا
جب تم نہ رہے کوئی ہمارا نہ رہے گا
دنیا میں رہے سلسلۂ حسن مجھے کیا
اے وقت مرا عہد تمنا نہ رہے گا
شاید کوئی حد سیل تمنا کی ہو لیکن
دھارا تو یہ کہتا ہے کنارا نہ رہے گا
بیٹھے تھے گھنی چھاؤں میں اس کی نہ خبر تھی
بڑھ جائے گی دھوپ اور یہ سایا نہ رہے گا
جب دیکھ کے خوش ہوتے تھے کیا جانتے تھے ہم
بڑھ جائے گی دھوپ اور یہ سایا نہ رہے گا
جب دیکھ کے خوش ہوتے تھے کیا جانتے تھے ہم
رہ جائیں گی آنکھیں یہ تماشا نہ رہے گا
سمجھا تھا نہ سمجھا ہے نہ سمجھے گا رضاؔ کچھ
دیوانہ تھا دیوانہ ہے دیوانہ رہے گا