ہم شاعر سے لو گ بھی توبہ کتنے پاگل ہوتے ہیں
کھوئے کھوئے رہتے ہیں ہم جیسے گھائل ہوتے ہیں
چھوٹی چھوٹی باتوں کو ہم پہروں سوچتے رہتے ہیں
ساتھ ہمارے جگنو،پھول اور بادل جیسے ہوتے ہیں
ہم پردیس میں رہنے والے یادوں کے سنگ رہتے ہیں
یاد کے جگنو برساتوں کے بادل جیسے ھوتے ھیں
ابن آدم آدم خور بنا ہے دیکھو شہروں میں
یہاں بھی کچھ انسان سنا ہے جنگل جیسے ہوتے ہیں
کل اک ماں نے اپنے بچے گلا دبا کے مار دیئے
غربت کے سائے آسیبی دلدل جیسے ہوتے ہیں
کتنی اچھی لگتی ہیں یہ لڑکیاں ماں اور بابا کو
ان کے سروں پہ شرم و حیا کے آنچل جیسے ہوتے ہیں
سجنی بیھٹی نیر بہائے ساجن کیوں پردیس گئے
اب نیناں تو بھیگے بھیگے کاجل جسے ہوتے ہیں