ابھی چراغ گل نہ کر ابھی سحر نہیں ہوئی
اندھروں پر ابھی اجالوں کی مہر نہیں ہوئی
نزاکتوں کے ساتھ جینا تھا کٹھن میرے لئے
گلوں کے ساتھ اسی لئے کبھی گزر نہیں ہوئی
جو پوچها کیسی آپ ہیں تو چل دین کہہ کے ٹھیک ہوں
کسی سے بات میری اتنی مختصر نہیں ہوئی
ارادہ و عمل ہون نیک تو ملین ہیں منزلیں
کبھی بھی شاخ کوششوں کی بے ثمر نہیں ہوئی
نہیں میں خوبرو ، بری پر اتنی شکل بھی نہیں
میری طرف مگر کبھی تیری نظر نہیں ہوئی
بس ایک دل میرا نہ جانے کیسے چوری ہو گیا
نہیں تو اور کوئی چیز ادھر ادھر نہیں ہوئی
کوئی بتا دے ان کو سانسیں گن رہا ہے اب حسن
نہیں تو یہ کہیں گے وہ ہمیں خبر نہیں ہوئی