رنجیدہ نہیں ابھی رمک ایمان باقی ہے
خاموش شہر میں میرے منہ میں زبان باقی ہے
روز جزا تو ہو گا جو دن مقرر ٹھہرا
ابھی تو دنیا میں امتحان باقی ہے
دائرہ بنا کر گدھ بیٹھ گئے اس کے گرد
جیسے کہ مردہ جسم میں ابھی جان باقی ہے
میل دھو لی صوفی نے اپنے دل کی مگر
اک حرص کا ذرا سا نشان باقی ہے
عذاب الہی کب کا آ چکا ہوتا اس بستی پر
شائد اس شہر میں ابھی کوئی انسان باقی ہے