اتنا بھی نہیں ناداں یہ ، بات سمجھتا ہوں
محبت کی بھی ہوتی ہیں ، ضروریات سمجتا ہوں
ساتھ جینے مرنے کی باتیں ہیں کتابی سب
میں اس شکمِ جہنم کے ، توہمات سمجھتا ہوں
قدرت کی کسی شۓ میں نقص دِکھتا نہیں مجھ کو
میں کاٸیں کاٸیں کو بھی ، نغمات سمجھتا ہوں
بد گوٸیاں بھی سہہ جاتا ہوں ہنس کر
دُشنامی کو تربیتی ، کلمات سمجھتا ہوں
تم محض کام سے جی مو نہ سکو گے
میں ان افسروں کی ، نفسیات سمجھتا ہوں
خوشامد ، مدح سراٸی ، چرب زبانی ، چاپلوسی
میں اِن سبھی زینوں کو ، واہیات سمجھتا ہوں
جَہل نے مَکر کو مانا ہے پیشوا
مُرشد میں تیرے ، کمالات سمجھتا ہوں
جاۓ خدا میں بھی چاہتا ہے شراکت تو
اے دل میں تیری ، ترجیحات سمجھتا ہوں
پہلے کاٹیں گے اہلِ علم سے پھر گمراہ کریں گے
میں اس مادر پدر آزادی کے ، نظریات سمجھتا ہوں
وباٸیں گر اَرض سے اٹھ بھی جاٸیں تو
تادیر رہتے ہیں ان کے ، اثرات سمجھتا ہوں
جانوں اگر قہر تو توبہ کا قَصد ہو
اخلاق میں کب حالات کو ، آفات سمجھتا ہوں