اتنا ہی گر یقیں ہے تو چل آزما کے دیکھ
گہرائی میں گہر ہے تو غوطہ لگا کے دیکھ
تھک کر گرا کہ یا ہے اذیت سے مرگیا
غربت نصیب کوذرا پھر سے ہِلا کے دیکھ
تبدیل ہوگیا ہے جہاں اور اس کے لوگ
صاحب کسی سے درد کا رشتہ بنا کے دیکھ
اونچی عمارتوں میں بھی رونا سکوں کا ہے
شک ہے تو جا کے روح کا پردہ اٹھا کے دیکھ
ہمدم نہیں ہیں اتنی بھی تاریکیاں دبیز
تھوڑا سا اپنی فکر کا دیپک جلا کے دیکھ
شاید کہ روکھے پھیکے ہوں اشعار شام کے
پھر بھی بتوں کے سامنے اک دن سنا کے دیکھ