اجالے ہو گئے زندہ مری غمگین آنکھوں میں
تم آئے تو سدا کو بس گئی تسکین آنکھوں میں
لگایا کاجل عشق اس نے جب شوقین آنکھوں میں
سمٹ آئیں سبھی رنگینیاں رنگین آنکھوں میں
مہک اٹھتی ہیں جسم و جاں کی افسردہ فضائیں بھی
جب آتا ہے پرو کر وہ گل نسرین آنکھوں میں
جو ان میں ڈوب جاتا ہے ابھر کر پھر نہیں آتا
سمندر کر رکھے ہیں بند کیا نمکین آنکھوں میں
بدن سونے کا رکھتا ہے وہ دلبر دیکھنے اس کو
لگا کر سرمۂ زریں چلو مسکین آنکھوں میں
اڑانیں بھرنے لگتی ہیں خیالوں کی ابابیلیں
جب آنکھیں ڈالتا ہوں میں تری شاہین آنکھوں میں
کئی دل پھینک دل کے آبگینے توڑ کر بھاگے
قیامت جب بپا ہونے لگی شوقین آنکھوں میں
ہمارے جذبۂ دل کو سراہو اے قلم کارو
فسانے کر دئے ہم نے رقم دو تین آنکھوں میں
لحد ایسی کسی نے بھی نہ دیکھی ہوگی اے شیبانؔ
ہزاروں حسرتوں کی ہو گئی تدفین آنکھوں میں