روشن خیالی کا شوق ، تباہی کا سامان بن گیا
اقدار کم ہوتی گئیں ، خود غرض انسان بن گیا
محبت کو بھی دولت کے ترازو میں تولا گیا
حسرتیں لہو ہوتی رہیں، ہر شخص انجان بن گیا
لوگ میری سوچ کو بوسیدہ و فرسودہ کہتے رہے
میں اپنی ڈگر پہ قائم رہا اور منزل کا نشان بن گیا
آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں جب کسی نے یہ کہا
عثمان تیرا اخلاق ترے، اجداد کی پہچان بن گیا