اجنبی شہر کے اجنبی راستے میری تنہائی پر مسکراتے رہے
میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا تم بہت دیر تک یاد آتے رہے
زہر ملتا رہا زہر پیتے رہے روز مرتے رہے روز جیتےرہے
زندگی بھی ہمیں آزماتی رہی اور ہم بھی اسے آزماتے رہے
زخم جب بھی کوئی ذہن و دل پر لگا زندگی کی طرف اک دریچہ کھلا
ہم بھی گویا کسی تار کے ساز تھے چوٹ کھاتے رہے گنگناتے رہے
کل کچھ ایسا ہوا میں بہت تھک گیا اس لئے سن کے بھی ان سنی کر گیا
پچھلی یادوں کے بیتے ہوئے کارواں دل کے زخموں کا در کھٹکھٹاتے رہے
اجنبی شہر کے اجنبی راستے میری تنہائی پر مسکراتے رہے
میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا تم بہت دیر تک یاد آتے رہے