سارے دعوے دار اور غمگسار اجنبی لگنے لگے
اپنے ہی شہر کے در و دیوار اجنبی لگنے لگے
جن کے سائے میں گزارے ہم نے پر سکوں لمحے
اب نہ جانے کیوں وہی اشجار اجنبی لگنے لگے
ہوتے ہوتے جن سے شناسائی سی ہونے لگی
جانے پہچانے سبھی اغیار اجنبی لگنے لگے
گردش دوراں مجھے اتنا تغیر بھی نہ دے
اپنے بیگانے سبھی غمخواراجنبی لگنے لگے
اپنے دل کی بات بھی ہم کیوں سمجھ پاتے نہیں
اب یہ عالم اپنے ہی افکار اجنبی لگنے لگے