ادا ہر اک دلیلِ بے مثالی ہے
وہ کتنا شوخ سا اورلا اُبالی ہے
تری چنچل نگاہِ شوق نے اکثر
مرے دل میں جگہ ہردم بنالی ہے
گُھلا ہے رنگ جوگُلشن کے پھولوں میں
مرے محبوب کے چہرے کی لالی ہے
چمن مہکے، کلی چٹکے،صبا بہکے
وصالِ یار کی ساعت نرالی ہے
غموں سے زندگی کے ڈر رہے ہوتم
ارے اٹھو بڑھو، اللہ والی ہے
شہر میں ہرطرف ہے خوف کا عالَم
عدو نے امن کی دولت چرالی ہے
ہے رقصاں بنتِ حوّا برسرِ محفل
یہ کیسی بدنُما روشن خیالی ہے
جہاں سے مانگ کر بھی کیاملا ہمکو
ہمارے خُم کودیکھو پھربھی خالی ہے
بتا دے کوئی آکر مجھکو یہ صفدر
غموں سے کس طرح دل کی بحالی ہے