ادراک سے ہے محروم ابھی، ہر بات ادھوری ہے عاشی
اظہار کی بنجر دھرتی پر برسات ادھوری ہے عاشی
سورج کی کرن میں تاب نہیں، تاروں کی چمک میں آب نہیں
ہر صبح ادھوری لگتی ہے ، ہر۔۔۔ رات ادھوری ہے عاشی
پھولوں میں مہکتے رنگ نہیں، خوشبو میں چمک آہنگ نہیں
کیا پیش کروں، کیا نذر کروں، سوغات ادھوری ہے عاشی
خواہش کا روپ سنہرا ہے، کچھ سمجھوتوں کا پہرا ہے
تقسیم ہُوئی ہُوں ٹکڑوں میں۔ یا۔۔۔۔ ذات ادھوری ہے عاشی
دریا کا کنارہ اک جانب، قسمت کا ستارا اک جانب
اک سُوکھے پیڑ کی ساحل پر ، اوقات ادھوری ہے عاشی
خُود مٹنے کی خواہش ہو جہاں، قربانی کی سازش ہو جہاں
وہ جیت مکمل جیت نہیں، وہ مات ادھوری ہے عاشی
گُم سُم ہے تخیل کا سرگم، شہنائی تغزل کی بے دم
قرطاسِ سخن پر حرفوں کی بارات ادھوری ہے عاشی
اخلاص، ایثار سے عاری ہو، اور مقصد کاروباری ہو
وہ دان ادھوارا ہے عاشی، خیرات ادھوری ہے عاشی