میں تماشا بھلا کس طرح نا بنتی
خودی تو محبت کر کہ اپنا گھر ُاجڑا ہے
سرے بازار مجھے پتھروں نے نہیں
تیرے منہ کے تلخ لفظوں نے مارا ہے
جس نے چھوڑ دیا تھا تیری خاطر سب کو
ہاں وہی شخص اب شہر میں بے سہارا ہے
کنارہ کر کے - کنارے پے کھڑے ہو
مجھے دکھوں کے سمندر میں تم نے ہی ُاتارا ہے
واہ - تیری محبت تو داد کے قابل ہے
کتنی بے رحمی سے میرے سینے میں خنجر ُاتارا ہے
مت چھوڑ اب زندہ یوں تڑپتا مجھے لکی
کہ ادھورا جینا میری ذات کو اب نہیں گوارہ ہے