کرتے ہیں قتل ایسے کہ ملتا نہیں گواہ
ارض و سماء کی خون سے آلودہ ھے نگاہ
ھے دوسروں پہ حرف کہ وہ بدکردار ہیں
بخشوا کہ جیسے لائے ھوں اپنے سبھی گناہ
اب دوست اور ہمدم کی پہچان کیسے ھو
چہرے پہ مسکراہٹ ھے مگر دل تو ھوئے سیاہ
یوں دوستوں کے آنسوؤں سے راحت ملے انہیں
دل آزاری کے فن میں ہیں یہ لوگ بادشاہ
اب اپنے آپ میں ھوئے سب لوگ یوں مگن
پھر ایسے بے وفاؤں سے کوئی کیسے کرے نباہ