ازل سے سرمشق جور پیہم خدنگ آفات کا نشانہ
میں سر سے پا تک ہوں نالئہ غم سناؤں کیا عیش کا ترانہ
سنا تو میں نے بھی ہے کہ دامِ قفس کو ٹوٹے ہوا زمانہ
تمیز لیکن نہ کرسکا میں کہ یہ قفس ہے کہ آشیانہ
عجیب اُلجھن میں تو نے ڈالا مجھے اے گردشِ زمانہ
سکون ملتا نہیں قفس میں نہ راس آتا ہے آشیانہ
اگر ارادے میں پختگی ہے تو پھیر دوں گا رُخِ زمانہ
جہاں پہ یورش ہے بجلیوں کی وہیں بناؤں گا آشیانہ
مصیبتوں کے گلے عبث ہیں فضول ہے شکوئہ زمانہ
جو مجھ سے پوچھو تو میں کہوں گا کہ ہی یہ عبرت کا تازیانہ
اسیر زنداں تھے جیسے پہلے وہی ہیں حالات اب بھی لیکن
ہے فرق اتنا کہ ہم سمجھنے لگے ہیں قفس ہی کو آشیانہ
نہ مجھ کو پروا خزاں کی ہوتی نہ خوف صیؔاد و برق ہوتا
بدل لے اے کاش کوئی اپنے قفس سے میرا یہ آشیانہ
وفا تو میری سرشت میں ہے وفا پرستی شعار میرا
جفائیں تم اپنی پہلے دیکھو وفائیں میری پھر آزمانہ
ہے میرا ذوق سجود اب بے نیاز دیر و حرم سے اختر
جبیں جہاں خم کروں گا ہوگا وہیں نمودار آستانہ