نفرت کے سوداگر لاکھوں ہیں
مسکان کا والی کوئی نہیں
طائر ناراض ہیں موسم سے
اشجار پہ ڈالی کوئی نہیں
بھوکی خلقت ،مٹتی سانسیں
چند سکوں پہ بکتی سوچیں
ہر طرف لٹیرے بیٹھے ہیں
یا فصلی بٹیرے بیٹھے ہیں
گھوڑوں کتوں کے رکھوالے
عزت کو سمیٹے بیٹھے ہیں
دہشت کے محافظ ہیں اکثر
انسان کا والی کوئی نہیں
پھولوں کی صدائیں کہتی ہیں
اس باغ کا مالی کوئی نہیں