اس بھیڑ رنجیدگی سے تو غریب ہی صحیح
جو بھی مل گئے وہ میرے نصیب ہی صحیح
بہاروں نے بھی کئی گلستان اجاڑدیئے تو
ہم ویسے بھی ہیں خزاں کے قریب ہی صحیح
اِس دامن میں ہر خوشی خود سے ہے
زمانے کی سرکشیاں وہ عجیب ہی صحیح
بس ہمارے خیال مزاج مستی میں ہوں
انتظار کی اور گھڑیاں کچھ مزید ہی صحیح
ہم سے رقیبی کا کہیں واسطہ نہ رہے باقی
تیری تجلی کا یہ شہر حبیب ہی صحیح
نہ سوچوں میں تفاوت نہ پیروں کو خطرہ مگر
منزلیں مل جائیں یہ راستے دقیق ہی صحیح