اس زمیں پر نہ آسماں پر ہے
میرے ہمدم تو اب کہاں پر ہے
چشمِ افلاک دیکھتی ہے مجھے
نام تیرا ہی اب زباں پر ہے
ڈوب جائے نہ یادکا منظر
آنکھ میری بھی بادباں پر ہے
تیری خواہش میں گر گئی ہوں یہاں
کیا کرے گا یہ اب جہاں پر ہے
میرے دل کو وہ کر گیا گھائل
تیر یادوں کا جو کماں پر ہے
موت آئے گی اب مجھے وشمہ
روح قبروں کے آستاں پر ہے