اس سے مرے نباہ کا رشتہ عجیب تھا
وہ بے وفا تو تھا مرے دل کے قریب تھا
دل کے معاملات تھے ، رکھتا میں کیا حساب
اس وارداتِ شوق میں دل بهى رقیب تھا
کھاتا ہے اب جو ٹھوکریں دشت فراق میں
وہ سنگِ بے نشاں بھی کسی کا حبیب تھا
حسن و جمال سے وہ پری وش تھا مالا مال
فطرت میں پر بہت ہی وہ بد رو مہیب تھا
جیتے ہیں لوگ زندگی اوروں کے بھاگ کی
كس كو ملا صلہ یہاں کس کا نصیب تھا
پتھر بھی پیٹ باندھنے کو تھا بہت گراں
ہر شخص میرے شہر کا اتنا غریب تھا
عیسیؑ کےوارثوں کی مسیحائی میں اے دوست
ہر پل دیارِغیر کا جیسے صلیب تھا