اس سے پہلے کہ مجھے سولی چڑھایا جائے
شہر والوں کو میرا جرم بتایا جائے
میں تو قائل ہی نہیں رسم زباں بندی کا
میرا مدعا سر راہ سنایا جائے
خود نگہباں ہی کسی سر سے ردا چھینے تو
تب زنجیر عدل کس کا ہلایا جائے
اور اے خاک وطن کتنا لہو پینا ہے
پیار کا قرض بتا کیسے چکایا جائے
ظل قرآں میں بڑھے داد گری سوئے ظلیم
ایسا دربار سر عام لگایا جائے
شب دجور بھی آخر کبھی ہو گی افروز
سلسلہ پھر سے محبت کا بڑھایا جائے
ہم سے تقدیر بھلا کب تلک روٹھے گی
شائد اس کو بھی کبھی ہم پہ پیار آ جائے
میرے دامن میں کانٹوں کے سوا کچھ نہ رہا
میرے مرقد کو ہی پھولوں سے سجایا جائے
جن سے بچھڑے نہ تھے اک پل کے لئے بھی خالد
ان کی یادوں کو بھلا کیسے بھلایا جائے