اس نے جاتے ہوئے مڑکر نہیں دیکھا ہم کو
ہم نے دیکھا ہے اسے دور تک جاتے جاتے
پھر کبھی دِل کے نگر میں ملے شاید ہم کو
اِک یہی دی ہے دُعا اِس کو بھی جاتے جاتے
جِس کو پُرنور سحر کا دیا تحفہ ہم نے
ہم کو ویران نگر دے گیا جاتے جاتے
کیسے تحریر کریں ہجر کی ویرانی کو
لے گیا لوح و قلم وہ میرا جاتے جاتے
اب دوا ہے،نہ مسیحا،نہ مسیحائی ہے
زخم ایسا وہ مجھے دے گیا جاتے جاتے
مجھ کو بے جان جسم دے گیا جادو اُسکا
کیھنچ کر روح میری لے گیا جاتے جاتے