پھر بہت دور تلک
اس کا میرا ساتھ رہا
اک خاموشی کا رشتہ
اس میں
مجھ میں نبھتا رہا
ہم اک ساتھ چلے
ہم قدم چلے مگر
انجان رستوں کی طرح
یہ دو راہی بھی چلے
پھر اک راہی ہار گیا
اس لمبے رستے پہ چلتے چلتے
تھک کر بیٹھ گیا
کچھ دیر سستانے کو
کچھ لمحے ٹھہر جانے کو
مگر لمحے کب ٹھہرتے ہیں
کسی کے ٹھہر جانے سے
اسے تو چلنا ہے
وہ چلتے رہتے ہیں
مگر لوگ تھک جاتے ہیں
کہاں دور تک ساتھ جاتے ہیں
یہ تو رستے ہیں
جو ساتھ نبھاتے ہیں