اس کا وعدہ تا قیامت کم سے کم
اور یہاں مرنے کی فرصت کم سے کم
سہ سکے درد محبت کم سے کم
دل میں اتنی تو ہو طاقت کم سے کم
اس کی یادوں سے کہاں ہے دشمنی
شمع جلتی شام فرقت کم سے کم
اس کے ملنے سے نہ ہوتی روشنی
گھٹ تو جاتی غم کی ظلمت کم سے کم
دیکھنے سے ان کے یہ حاصل ہوا
ہو گئی اپنی زیارت کم سے کم
اس کے خط میں اور سب کچھ تھا مگر
صرف مطلب کی عبارت کم سے کم
درد دینے کے وہاں ساماں بہت
اور تڑپنے کی اجازت کم سے کم
کیوں غم دوراں زیادہ مل گیا
تھی ہمیں جس کی ضرورت کم سے کم
خیر تم سے دوستی مشکل سہی
رہنے دو صاحب سلامت کم سے کم
دیکھ کر ان کو یہ اندازہ ہوا
ہوگی ایسی ہی قیامت کم سے کم
دولت غم کی فراوانی سہی
دامن دل میں ہے وسعت کم سے کم
غم نہیں جو چند یادیں ساتھ تھیں
کر تو لی دل کی حفاظت کم سے کم
سینہ چاکی عمر بھر کی ہے صباؔ
زخم سلنے کی تھی مدت کم سے کم