کناروں کو ملاتے ہوئے عمر گزر گئی
تعلقات کو نبھاتے ہوئے عمر گزر گئی
بچوں کے سامنے رسوائی کے خوف سے
آنسوؤں کو چھپاتے ہوئے عمر گزر گئی
پیا گھر سدھارنے کی شرائط بہت تھیں
جہیز کو بناتے ہوئے عمر گزر گئی
اک روز یاد آئی تھیں ناکام حسرتیں
پھر سلگتے سلگاتے ہوئے عمر گزر گئی
مصلحت کی بھینٹ چڑھے اپنے حقوق بھی
بس ہمدردیاں جتاتے ہوئے عمر گزر گئی
عثمان اپنے فیصلے پہ پچھتاوا نہیں مجھے
اس کو یقیں دلاتے ہوئے عمر گزر گئی