اس کی تیاریاں دیکھ کر مجھے ایسے لگنے لگا ہے
میں اس کے رنگ میں بھنگ ڈال رہا ہوں
وہ جو میرے عکس میں اپنی مسکراہٹ ڈھونڈتا تھا
آج میں آئینے میں جھنجھال ڈال رہا ہوں
پہلے پہل وہ جو گلے سے لگاتا تھا ہر بات پر
اب اُسی کی بات پر دق ڈال رہا ہوں
میرے سچے لفظ اب اس کو لگیں الزام جیسے
اور میں سچ کی راہ میں پل ڈال رہا ہوں
جس کے ہر وعدے پہ میں جان لٹایا کرتا تھا
آج میں وفا کے بدلے تپ ڈال رہا ہوں
آج اُس کی مسکراہٹ بھی لگے زہر جیسی
میں محبت کی چھاؤں میں خل ڈال رہا ہوں
کیا قصور دل کا ہے، جو ٹوٹتا ہے بار بار؟
میں بھی اپنے آپ پر طنز ڈال رہا ہوں
مظہرؔ! سچ پوچھو تو یہ عشق بڑا نرالا ہے
جو ستم سہہ کر بھی رنگ ڈال رہا ہوں